MNN News
مسائل آپ کے اجاگر ہم کرینگے

مال مفت دل بے رحم

0 373

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

تحریر وارث دیناری

- Advertisement -

آج میں بہت پریشان ہوں کہ اپنی بات کا آغاز کہاں سے کروں۔کیسے کروں،کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے الفاظ بھی ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔کیونکہ اوستہ محمد سے جیکب آباد جاتے ہوئے ڈیرہ اللہ یار بائی پاس پر جو منظر میں نے دیکھا اس سے دل کو بہت تکلیف ہوئی ہے کیا دیکھتا ہوں کہ لاتعداد بجلی کے نئے پول اور ٹرانسفارمرتاریں جن کی مالیت کروڑوں میں ہے بارش کے پانی میں پڑے ناکارہ ہورہے ہیں میں تو اس بات پر حیران ہوں ایک روز کی بارش سے اتنا پانی نہیں آیا مسلسل کئی ہفتوں کی بارشوں سے یہ منظر بنا ہے اس دوران کسی کو بھی یہ خیال کیوں نہیں آیا کروڑوں مالیت کا یہ سامان ناکارہ ہونے جارہا ہے تین ماہ سے زیادہ عرصہ ہونے کو ہے اور یہ نظارہ میرے خیال میں وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلی گورنر بلکہ کیسکو چیف نے بھی دیکھا ہو گا لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جو تک نہیں رینگی ہو۔مال مفت دل بے رحم، اردوکا یہ محاورہ تو ہر مفادپرست بے حس انسان پر صدق آتا ہے۔تاہم یہ محاورہ سرکاری محکموں پر سوفیصد فٹ ہوتاہے۔ہمارے اہلکار سرکارکے خزانے کو جس بے دردی سے لوٹتے ہیں ان کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے۔اس لئے تو کہتے ہیں پاکستان ایک لاش کی ماند ہے جس کوہرطرف سے گدھ نوچ رہے ہیں۔آج با اثر طبقہ ملک کے وسائل اور عوام کو گدھ کی طرح نوچ رہے ہیں۔کسی شاعر نے وطن عزیز کا نوحہ کچھ اس طرح بیان کیاہے کہ میرے بدن پر بیٹھے ہوئے گدھ ۔میری گوشت کی بوٹی بوٹی نوچ رہے ہیں۔اگر آپ کسی بھی سرکار محکمے کے دفتر میں جائیں،تو آپ کو مختلف قسم کی فرنیچر اور دیگر سامان خاص کرگاڑیاں کھڑی نظر آئیں گئی جن کو معمولی خرابی پرناکارہ کرکے کھڑی کردی گئی ہیں جبکہ ان کا خرچہ اور تیل کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، معمولی خرچہ کرکے ان کو کارآمد بنایا جا سکتا ہے اگرایمانداری کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کی جائے تو مذید کئی سال تک یہی گاڑیاں چل سکتی ہیں جیسا کہ ہم اپنے باپ دادا کے دور کی اشیاء کی حفاظت اور دیکھ بھال کرکے ان سے مستفید ہوتے ہیں تو سرکاری اشیاء کی اسطرح سے حفاظت کیوں نہ ممکن ہے؟
میں نے کئی بار دیکھا کروڑسوا کروڑکی سرکاری گاڑی پر اینٹیں اٹھاتے ہوئے پانی کے بڑے ڈرم جانوروں کے چارہے کے لیے بھی انہی قیمتی سرکاری گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔جبکہ دو چار سو روپے میں یہ کام ہوجاتا لیکن سرکارکی یہ قیمتی گاڑی مفت کی ہے سرکاری آفیسران کے کم سن بچے ہوں یا بیگمات گاڑی چلانا ڈرائیونگ سیکھنا ہے تو سرکاری گاڑی جو ہے۔بیشتر آفیسرز قیمتی سرکاری گاڑیوں کا بے دردی سے استعمال کرتے ہیں انکو دیکھ کر ایک عام شہری کا دل جلتا ہے۔ کئی کئی ماہ تک ان گاڑیوں کی سروس نہیں کی جاتی یہاں تک کہ ان کی موبل آئل اور فلٹر تک تبدیل نہیں کئے جاتے جبکہ اس مدد میں پیسے باقاعدگی کے ساتھ وصول کئے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اپنی ذاتی چھوٹی سے چھوٹی گاڑی بھی ہو تو اس کی صفائی کپڑے سے نہیں بلکہ اپنی زبان سے کرتے ہیں۔دیگر سرکاری اشیاء کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا ہے۔گوداموں یا پھرے کھلے آسمان تلے پڑے پڑے کروڑوں کی چیزیں ناکارہ بن کر سکریپ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔وطن عزیزکے تمام سرکاری محکموں کا ایک دوسرے سے زیادہ برا حال بنا ہوا ہے۔اگر سیلاب نہ آتا تو ملک دیوالیہ ہوچکا ہوتا اتنے بڑے اور سنگین بحران کے باوجود ہماری بیوروکریسی اور حکمران سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ سرکاری خزانے کو مال غنیمت سمجھتے ہیں۔ گوڈگورنس اور کفایت شعاری سادگی کا دعویٰ تو ہرحکومت کرتی رہی لیکن عملی طور پر آج تک کچھ بھی نہیں ہو ا۔ہاں ایک مرد مجاہدوزیراعظم پاکستان بناتھا جس نے سب سے پہلے خود عملی طور پر سادگی کا نمونہ پیش کیا پھرسب کو سادگی اختیار کرنے کا حکم دیا۔کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے ہم فضول خرچی بے جا اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔انھوں تمام آفیسران کیلئے ملک میں تیار ہونے والی چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کا اعلان کیا۔لیکن یہ بات ہمارے بیوروکریسی کو پسند نہ آئی پریس کانفرس کے دوران ان کو برطرف کردیا گیا۔اس مرد مجاہد کے بعد ہر آنے والی حکومت نے کفایت شعاری گوڈگورنس کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کے برعکس کرتے آئے ہیں۔آج کل تو یہ ایک رسم بن چکی ہے ہر تین چار سال کے بعدجب نئی حکومت بنتی ہے تو وزراء کیلئے نئی گاڑیاں ان کے دفاترکی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اسی طرح بیوروکریسی بھی کرتی آرہی ہے۔غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کیلئے کبھی بھی سنجیدگئی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا گیا،صرف اور صرف دعوے کئے گئے۔اگر دیکھا جائے تو سرکاری آفیسر ان ہویا پارلیمنٹرین چند ایک کے سوا تمام کے تمام کروڑپتی ہی ہیں یہ لوگ جب اپنے ذاتی گھر کی ہر ایک اینٹ کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں اپنے گوداموں پڑے غلے کی ایک ایک بوری کی حفاظت کرسکتے ہیں تو پھرکیسے ا ربوں روپے مالیت کی لاکھوں بوریاں ضائع ہوجاتی ہیں بڑے بڑے بنگلے گھنڈرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں ذاتی کچھ مالیت کی مہران یا کلٹس کار کئی سال تک قابل استعمال رہ سکتی ہے تو کروڑ سوا کروڑ مالیت والے ویگو اور پراڈو گاڑیاں چند سال میں نا کارہ کیوں ہوجاتے ہیں مجھے پرویز مشروف کا یہ عمل بہت ہی اچھا لگا کہ دفتری اوقات کے علاوہ سرکاری گاڑی سڑک پر نہ ہو اور ضلع سے باہر لے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تو اس وقت کچھ وقت کیلئے سرکاری گاڑیوں کا بجا استعمال کسی حدتک کم ضرور ہوا تھا۔سرکاری آفیسرز کو مانیٹرنگ ٹیموں کا خوف رہتا تھا کہ کسی بھی وقت کوئی دیکھ نہ لے۔تمام اہل وطن کی طرف اپنے ملک کے پالیسی سازوں سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ اللہ واسطے غریب عوام کے خون پسینے کے پیسوں کو یو بے دردی سے برباد نہ کرنے دیں اور ایسے قوانین بنائے جائیں کسی کی غفلت لاپرواہی کی بدولت جو نقصان ہو اس سے ہرجانہ وصول کرکے سرکار کے خزانے میں جمع کیا جائے اگر چند افراد کو بھی ان کی غفلت کی سزادی گئی تو دوسرے ان کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں اس طرح ملک میں ایک اچھے نظام کی داغ بیل ڈالی جاسکتی ہے نیز جن آفیسران کیلئے گاڑی ضروری ہے تو ان کے نام پر الاٹ کرکے ریٹائرمنٹ پر ان سے پیسے لئے جائیں اس عمل سے ایک خطیررقم بچائی جاسکتی ہے.

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

Leave A Reply

Your email address will not be published.