سعید احمد بلوچ کا قتل پارٹی رہنماؤں کو جدوجہد سے دستبردار کرنا تھا، جہانزیب جمالدینی
کوئٹہ (مسائل نیوز) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے سعید احمد بلوچ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعید احمد بلوچ کا قتل ایک سیاسی قتل ہے، جس کا مقصد بلوچستان نیشنل پارٹی اور پارٹی رہنما موسیٰ بلوچ کو جدوجہد سے دستبردار کرنا تھا، بلوچستان کے ساحل اور وسائل، حق حاکمیت، قومی حقوق کے حصول، ننگ و ناموس کی جدجہد میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ سمیت سو سے زائد پارٹی کارکن جاں بحق ہوچکے ہیں مگر آج تک کسی ایک بھی کارکن یا پارٹی رہنما کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکا پارٹی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ سے قومی تحریک نہ پہلے کمزور ہوئی ہے اور نہ آئندہ کمزور ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن سابق سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، چیئرمین بی ایس او جہانگیر منظور بلوچ، بی این پی کے مرکزی لیبر سیکرٹری موسیٰ بلوچ، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری رکن صوبائی اسمبلی احمد نواز بلوچ، مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ضلع کوئٹہ کے صدر غلام نبی مری، مرکزی ایگزیکٹو کے ارکان حاجی ولی محمد لہڑی، آغا خالد شاہ دلسوز، حاجی باسط لہڑی، بی این پی جعفر آباد کے صدر احسان کھوسہ، ضلع کوئٹہ کے جنرل سیکرٹری جمال لانگو، سینئر نائب صدر ملک محی الدین لہڑی، اکرم بنگلزئی، میر غلام رسول مینگل، سراج لہڑی، علی احمد قمبرانی، اسد سفیر شاہوانی، نعمت مظہر ہزارہ و دیگر نے ہفتہ کو جاں بحق سعید احمد بلوچ کے چہلم کے موقع پر برما ہوٹل سریاب روڈ پر منعقدہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا، مقررین نے پارٹی کے مرکزی لیبر سیکرٹری موسیٰ بلوچ کے بھائی جاں بحق سعید احمد لہڑی کو ان کی پارٹی کے لئے خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 40 روز گزرنے کے باوجود سعید بلوچ کے قتل میں ملوث ملزمان گرفتار نہیں کیے جاسکے اور نہ ہی اب تک تحقیقات میں کوئی پیشرفت ہوسکی، سعید احمد بلوچ کا قتل ایک سیاسی قتل ہے جس کا مقصد بلوچستان نیشنل پارٹی اور پارٹی رہنما موسیٰ بلوچ کو جدوجہد سے دستبردار کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل، حق حاکمیت، قومی حقوق کے حصول، ننگ و ناموس کی جدجہد میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ سمیت سو سے زائد پارٹی کارکن جاں بحق ہوچکے ہیں مگر آج تک کسی ایک بھی کارکن یا پارٹی رہنما کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سعید احمد بلوچ اور ندیم بادینی کے قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے، قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف پارٹی جلد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ پارٹی رہنماؤں نے کہا کہ سازش کے تحت پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے تاکہ پارٹی کی ساکھ کو کمزور کیا جاسکے مگر خام خیالی ہے کہ منفی پروپگینڈہ کرکے پارٹی کو کمزور کیا جائے گا بلوچستان نیشنل پارٹی نے اقتدار کے لئے نہیں بلکہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل اور قومی حقوق کیلئے جدوجہد کی ہے اور اس راہ میں سینکڑوں بلوچ فرزندوں نے شہادتیں دی ہیں مگر قومی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوئے۔ پارٹی میر عبدالعزیز کرد، میر یوسف عزیز مگسی اور راہشون سردار عطاء اللہ مینگل کے وژن اور ان کی جدوجہد کو آگے بڑھارہی ہے، بلوچستان کی نمائندہ قومی جماعت ہونے کے ناطے صوبے پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں جدوجہد کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیرت ہے کہ آج وہ جماعتیں بھی اپنے اسٹیج سے بلوچستان نیشنل پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں جن کا اپنا ماضی بلوچ قوم کے سامنے ہے بی این پی نے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار کے حصول کیلئے مری معاہدے جیسا کوئی معاہدہ نہیں کیا بلکہ تحریک انصاف کی قیادت کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی، گوادر کے حوالے سے قانون سازی، مقامی افراد کے حقوق کا تحفظ، افغان مہاجرین کا انخلا، ملازمتون کے وفاقی کوٹہ پر بلوچستان کیلئے ملازمتوں کے حصول پر مبنی چھ نکات رکھے اور موجودہ حکومت میں بھی ہم نے وزارتوں کے بجائے بلوچستان کے جملہ مسائل کے حل کا مطالبہ کیا، ہم اپنی کارکردگی کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں 2008ء سے 2018ء تک وہ جماعتیں بھی اپنی کارکردگی قوم کے سامنے رکھیں جن کے دور حکومت میں ٹینکیوں سے پیسے برآمد ہوئے، لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملیں، توتک میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ رہنماؤں نے کہا کہ سریاب پہلے بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کا قلعہ تھا آئندہ بھی رہے گا، سریاب کے عوام نے ہر دور میں ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر بلوچستان نیشنل پارٹی کی جدوجہد کو تقویت بخشی ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن کے بلوچ ننگ و ناموس، طلباء اور تعلیمی اداروں سے متعلق بیانات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وقت نے ثابت کیا کہ مولانا ہدایت الرحمن کو ایک سازش کے تحت گوادر کے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمن اس وقت کہاں تھے جب بلوچستان یونیورسٹی کا سکینڈل رونما ہوا تب یہی بلوچستان نیشنل پارٹی اور بی ایس او کے کارکن تھے جنہوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سال کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کو زیر کرنے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کو اسی مقصد کیلئے لایا گیا تھا تاکہ ان کے ذریعے ہمارے حلقوں میں غیرمنتخب افراد کو نوازا جائے ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ہمارے حلقوں میں مداخلت بند کی جائے مگر مداخلت بند کرنے کی بجائے ہمیں ہر طرح سے دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی مگر اس کے باوجود نہ تو پارٹی کی مقبولیت میں کمی آئی اور نہ ہی ہمارے کارکنوں کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔
- Advertisement -
[…] (مسائل نیوز) سابق سینیٹر اور سینئر سیاستدان ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی نے تحقیق اور جدت کو […]